Add To collaction

خوش قسمت ہیں کہ ہم نے عمران خان کا زمانہ دیکھا

 

مجھے شروع سے ہی ہمیشہ راست گو، دیانت دار، سچ کو بے محابا بیان کرنے والے لوگ پسند رہے ہیں، وہ جو خاموش طبع نہ ہوں، وہ جو دل سے کہیں اور کہہ جائیں، وہ جو سچ کے ساتھ کھڑے رہیں، وہ جن کے اندر کسی طرح کا کمپلیکس نہ ہو، وہ جو جدید سوچ کے مالک ہوں لیکن اپنے کلچر سے جڑے ہوں، جو ظلم کے مخالف ہوں، یہ میری کیمسٹری رہی ہے ہمیشہ،   برطانیہ کا جارج گیلوے ہو، امریکہ کا نوم چومسکی ہو، بھارت کی ارون دھتی رائے یا اروند کجریوال ہو  ں اس ٹائپ کے لوگ مجھے ہمیشہ پسند رہے ہیں، بطورِ  طالب علم ہم نے مطالعہ پاکستان  میں پڑھا کہ خان لیاقت علی خان نے امریکہ کے خلاف سٹینڈ لیا ان کو مار دیا گیا، پھر ذولفقار علی بھٹو نے سٹینڈ لیا ان کو رستے سے ہٹا دیا گیا، پھر عمران خان نے سٹینڈ لیا تو ہٹا دیا گیا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دراصل امریکی اسٹیبلشمنت کا مہرہ ہے، پاکستان کے امریکہ کی قربت کی وجہ سے   ظاہر شاہ  اور داؤد کے افغانستان  سے کبھی نہ بن سکی، روس نے ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان میں اس کی مرضی کی حکومت رہے جب خطرہ ہوا تو دس سال تک روس افغانستان میں بیٹھا رہا اور پاکستان کی مدد سے اس کو نکالا گیا، اسی وجہ سے روس نے کشمیر پر ہر قرار داد کو ویٹو کیا،  اس خطے میں پاکستان کو ڈرا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ یہ خوف برقرار رکھے، جنرل ایوب کو سکندر مرزا نے عجلت میں توسیع دی، قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ آرڈر پہ سگریٹ کی ایش گرنے سے آرڈر کا قرطاس جل بھی گیا تھا، اسی ایوب خان نے سکندر مرزا کو پاکستان میں دفن تک نہ ہونے دیا، ضیاء کو خلاف ضابطہ  بھٹو نے آرمی چیف بنایا، اور جو ہوا آپ کو علم ہے، مشرف کو بھی سپرسیڈ کر کے آرمی چیف بنایا گیا پھر اسی نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا، جنرل باجوہ کو عمران خان نے تین سال کی غیر معمولی توسیع دی، جو ہوا سامنے ہے، پاکستان میں حکومتوں کے بننے  اور گرنے میں امریکی مفاد اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ غالب رہی ہے، محمد علی جناح نے قوم کو خودی، خودمختاری، اصول پسندی کا درس دیا، جناح مذہبی ذہن رکھنے والے  لیکن جدید سوچ کے مالک تھے، بلا کے دیانت دار، ٹھنڈے مزاج  اور سچے تھے، سچ کو کھل کے بیان کرتے تھے، ان کی اپنی ازدواجی زندگی تنازعات کا شکار رہی، ان کی  واحد اولاد دینا واڈیا الگ ہو گئیں،  یہ تمام درد برداشت کرتے ہوئے وہ اپنے مقصد کیساتھ مخلص رہے، ہم نے جناح کا زمانہ تو نہیں دیکھا البتہ ہم نے عمران خان کا زمانہ دیکھا، پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں خان کی شخصیت کا ظہور ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، کرکٹ ٹیم کی قیادت میں رہ کر محبتیں اور شہرت سمیٹنے والا خان جب خدمت انسانیت کے میدان میں آیا تو لوگوں نے اتنا پیسہ نچھاور کیاکہ اس وقت  کینسر کے علاج کا تیسرا ہسپتال کراچی میں زیرِ تعمیر ہے،  جب وہ سیاست میں آیا تو بائیس سال کی ایک طویل جدوجہد کے بعد وزیر اعظم بنا، پاکستان کا پہلا وزیر اعظم ہے جس نے ایک ووٹ سے جدوجہد کی اور اس مقام تک پہنچا، بھٹو نے سکندر مرزا کے دور میں کراچی میں وزارت خارجہ میں انٹری کی، پھر  بغیر الیکشن لڑے ایوب کے وزیر خارجہ بنے، ایوب کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، کوئی سیاسی جدوجہد نہیں کی، نواز شریف کو ضیاء نے ڈائرکٹ پنجاب کا وزیر بنایا، اس نے بھی کوئی سیاسی جدوجہد نہیں کی، بلکہ ایوانِ اقتدار تک رسائی کے بعد خوب مال بنایا، لیکن عمران خان ایک مختلف شخصیت کا نام ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں فارغ التحصیل انسان نو سال تک بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر رہا، نمل یونیورسٹی میانوالی میں قائم کی، جو تین سال سات ماہ وزیر اعظم رہا جس کے دو سال کرونا میں گزر گئے، اس پونے چار سال کے عرصے میں نہ جائیداد بنائی، نہ رشتہ داروں کو نوازا، نہ اولاد کو  بیرونی دوروں پہ ساتھ رکھا، نہ حسبِ روایت قومی خزانے سے پیسے دیکر اپنے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کو ناکام بنایا، جو دل میں آیا کھل کے بولا، تقریر کرنا بالکل نہیں جانتا لیکن دل سے بولنے کی وجہ سے بے پناہ محبتیں مقدر ٹھہریں، بلا کا دیانت دار آدمی، خودی اور خود مختاری کی تبلیغ کے جرم میں اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، آج میں دیکھ رہا ہوں لندن سے ملبورن تک پاکستانی مظاہرے کر رہے ہیں، رنجیدہ ہیں، یہ ہے وہ شعور جو خان نے دیا ہے، غیر اخلاقی طریقے سے نکالنے کی وجہ سے اس کی محبوبیت میں اضافہ ہو گیا ہے، کل ہم بھی اس ہمالہ جیسی بلند شخصیت کے بارے میں اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ ہم نے بھی عمران خان کا زمانہ دیکھا ہے

   2
1 Comments

Arshi khan

14-Apr-2022 01:12 PM

Good

Reply